وہ اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوا جبکہ دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا

*وہ اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوا جبکہ دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا*
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
*بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا*
(مصطفیٰ خان شیفتہ)
گلہ کیسا حسینوں سے بھلا نازک ادائی کا
*خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے*
(سرور عالم راز سرور)
داورِ حشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ
*اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں*
(ایم ڈی تاثیر)
*میں کِس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں*
***تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے***
(مصطفیٰ زیدی)
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
*دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے*
(مرزا غالب)
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
*خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو*
(میانداد خان سیاح)
غم و غصہ، رنج و اندوہ و حرماں
*ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے*
(حیدر علی آتش)
مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی
*مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی*
(نا معلوم)
آخر گِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی
*پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا*
(مرزا جواں بخت جہاں دار)
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
*ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں*
(مولانا الطاف حسین حالی)
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
*بہت دیر کی مہرباں آتے آتے*
(داغ دہلوی)
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
*مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے*
(حیدر علی آتش)
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے
*کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا*
(چراغ حسن حسرت)
جذبِ عشق سلامت ہے تو ان شاء ﷲ
*کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے*
(انشاللہ خان انشاء)
قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
*جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین کا*
(امیر مینائی)
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزاں دکھلا گئے
*حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے*
(شیخ ابراھیم زوق)
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
*ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا*
(مرزا غالب)
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھ ہیں
*صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں*
(داغ دہلوی)
چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے
*عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے*
(فدوی لاہوری)
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
*اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا*
(میر طاہر علی رضوی)
لائے اس بت کو التجا کر کے
*کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے*
(پنڈت دیال شنکر نسیم لکھنوی)
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
*شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات*
(علامہ اقبال)
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
*جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی*
(علامہ اقبال)
اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں
*اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں*
(شعیب بن عزیز)
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
*بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے*
(پروین شاکر)
برباد گلستاں کرنے کو، بس ایک ہی الو کافی تھا
*ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا*
(شوق بہرائچی)
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا نکتہ سرا
*صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیئے*
(مرزا غالب)
باغبان نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
(ثاقب لکھنوی)
All reactions:
Samreen Asad, Nadeem Rizvi and 5 others

Comments

Popular posts from this blog

نئی ٹیکسی

پیرویٔ رہنما میں رہنما کے ساتھ چل

ارتقاء