اک یاسِ مزمن مستقل کے ساتھ ہی بسر رہے

 اک یاسِ مزمن مستقل کے ساتھ ہی بسر رہے

اور سوچ بھی جزبات سے عمومی بے خبر رہے 

کیا ہی تم نے زندگی کا ذائقہ چکھا ہوگا 

جب ذات کو حالات سے الگ ہی رکھ کر رہے

کس طرح کریں نمو پختگی کو سوچ کی

 گر انتقال سوچ کا بہ لفظ بے صبر رہے

جو بات بھی تم نے کہی جو بات بھی سنی گئی

وہ بات بھی اُدھر رہی یہ بات  بھی اِدھر رہے

کیا دوسروں کے سامنے معاملے کھولا کریں

کوشش ہی یہی رہی کہ گھر کی بات گھر رہے

یہ بات اہم تو نہیں کہ ساتھ ہم کس کے جیئیں

مر جائیں نہ کس بے بِنا جیتے اگرجی کر رہے

بس کر سفرؔ اب روک لے اپنا سفر کر مختصر

کیا منزلیں ہے ڈھونڈتا  ہر راستہ چکر رہے

سفرؔ


Comments

Popular posts from this blog

ارتقاء

نئی ٹیکسی

کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی