ہلی بات تو یہ کہ evolution نام ہی غلط ہے، چارلس ڈارون خود descent with modification کی اصطلاح کو ترجیح دیتا تھا کہ evolution کا مطلب growth ہوتا ہے اور ارتقائی معاملے کا growth سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ اردو میں بھی اسکا ترجمہ "ارتقاء" ایک بالکل غلط تاثر دیتا ہے۔ (اور اس ویڈیو کے نیچے کمنٹس میں تو اور باکل غلط اصطلاح کی کوشش کی گئی ہے "تکامل"). ارتقائی عمل کا ترقی (یا کاملیت) سے براہ راست کوئی تعلق ہرگز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ زندگی ایک خلیہ والے جاندار سے شروع ہوئی اور انسان جیسے ناطق حیوان تک آگئی تو اس کو ترقی کہنے مِیں کیا مضائقہ ہے۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ اس کلیہ میں یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ دورِ حاضر کے ایک خلیہ کے جانداروں نے بھی اتنی ہی ارتقائی منازل طے کی ہیں کہ جتنی انسان اور دیگر تمام جانداروں نے کی ہیں، کیا ہم ایک امیبہ (Amoeba) کو بھی انسان جتنا ہی ترقی یافتہ گرداننے کے لیئے تیار ہیں؟ یا پھر مثلاً کرونا وائرس کیا انسان جتنی ارتقائی ترقی کرپایا ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو لوہے کہ چنے چبانے پر مجبور کررہا ہے۔ ارتقاء کی تو صرف دو بنیاد ہی...
ابا کا ایک دوست ہے، مقصود۔ ہماری ہی گلی میں ہی رہتا ہے- اسکے پاس ایک پرانی سوزوکی ٹیکسی ہے ۔ ابا ویسے تو بس میں آتا جاتا ہے مگر جب کبھی اماں یا ہم کو کہیں لے کے جانا ہو تو مقصود کو ہی کہتا ہے کہ لے چل۔ چونکہ مقصود ابا کا دوست بھی ہے اور اسکے ساتھ تاش بھی کھیلتا ہے، اس لیئے ابا کو کرایہ میں کچھ رعایت دے دیتا ہے۔ مجھے مقصود بالکل بھی اچھا نہیں لگتا، گھور گھور کر دیکھتا رہتا ہے، جب ابا سامنے نہ ہو تو کہتا ہے مجھ سے شادی کرے گا، ویسے تو ابا اس معاملے میں کافی ٹھیک ہے مگر مجھے ڈر ہے کہ کہیں مقصود ابا کو پٹا ہی نہ لے۔ ایک دفعہ میں اسکول سے گھر آرہی تھی کہ دو اوباش لڑکوں نے مجھے دیکھ کر پہلے تو آوازے کسنا شروع کیئے مگر پھر میرا پیچھا شروع کردیا ۔ میں تیز تیز قدموں سے جلدی گھر آجانے کی دعا کرتی تقریبا بھاگنا شروع ہوگئی کہ مجھے مقصود کی ٹیکسی نظر آگئی۔ وہ سڑک کے کنارے ٹیکسی کھڑی کرکے سواری مل جانے کا انتظار کررہا تھا۔ میں نے آو دیکھا نہ تاو اور جلدی سے دروازہ کھول کر اسکی ٹیکسی میں بیٹھ گئی اور مقصود سے کہا کہ دو لڑکے میرا پیچھا کررہے ہیں تو مجھ...
کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی کہ وہ غریب و امیر خادم و مخدوم حاکم و محکوم سب کو ایک نظر سے ایک نگاہ سے ایک ہی طرز سے گھیرے میں لے رہا تھا مگر وہ تو قدرتی آفت تھی یہ جو انسانوں نے خود اس کے مقابلے پر احکامات جاری کردیئے ہیں یہ امیر و غریب میں فرق کرتے ہیں اگر بظاہر نہیں کرتے توآثار میں ضرور کرتے ہیں کہ معاشی عدم استحکامی امیر کی دولت میں صرف کمی کرسکتی ہے بلکہ شاید صرف یہ کہ اسکی امارت کو بڑھنے سے روکتی ہے اور کچھ امراء نے تو اس وبا میں اور دولت جمع کرنے کے مواقع ڈھونڈ نکالے ہیں جو تھوڑے کم امیر ہیں انکی تو صرف سیر و سیاحت، کھانے اور کھلانے پر ایک قدغن لگی ہے یہ تو صرف غریب ہے کہ جس کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے کرونا سے بھی مرنا تھا،اسے اب بھوک سے بھی مر نا ہے وہ سفید پوش جو اپنا بھرم رکھنے کی خاطر اپنے گھروں کے حالات کو کسی نہ کسی طرح دوسروں کی نگاہوں سے زبانوں سے محفوظ رکھے ہوئے تھے چادر کے مختلف کونوں کو باری باری کھینچ کر اپنی عزت کو ڈھانپنے کی کوشش کررہے تھے مگر وہ اب یا تو سر جھکائے اپنی سفید پوشی پر ہاتھ پھیلا کر داغ قبول کررہے ہیں یا وہ اب بس خا...
Comments
Post a Comment