سب باوجہ ہے

 یہ جو زندگی کی حالت ہوئی ہے 

آزادی میں بھی غلاموں کی طرح  بسر ہوئی ہے

سب باوجہ ہے

 

بک جاتے ہیں کچھ لوگ چند پیسوں کی خاطر

چند ڈالر کے لیئے کچھ ریالوں کی خاطر

اور ان کو روکنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے 

سب باوجہ ہے

 

حکومتیں درآمد ہوتی رہی ہیں، اذہان برآمد ہوتے رہے ہیں

ملک بس مزدوروں کی تنخواہوں پہ چل رہا ہے

سب باوجہ ہے

 

سیاسی بالیدگی کی ترقیٔ معکوس ہوئی ہے

زبانوں پر  پڑے ہیں تالے اور زنجیریں لگی ہیں

سب باوجہ ہے

معاشرے میں دبے طبقے کے اندر ہی چپقلش کی افزائش ہوئی ہے

ایک کے بعد ایک سیاسی جماعت کی پیدائش ہوئی ہے

سب باوجہ ہے

 

یا تو برسوں لوگوں کے چکر پہ چکر ، عدل کی قلت رہی ہے

یا زود رفتار سے راتوں کی تاریکی میں شنوائی ہوئی ہے

سب باوجہ ہے

 

ڈنڈوں کی ،  ہتھیاروں کی چند ہاتوں میں ہم آہنگی رہی ہے

بھیڑوں کے گلّے چند سواروں کے اشاروں پہ چلتے رہے ہیں

سب باوجہ ہے

 

کچھ بے وجہ نہیں ہے

سب باوجہ ہے


سفرؔ 2022

Comments

Popular posts from this blog

نئی ٹیکسی

پیرویٔ رہنما میں رہنما کے ساتھ چل

کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی