یار ذرا آہستہ

وقت کہتا ہے مجھ سے یار ذرا آہستہ
اپنی امیدوں کے بل پر
کس قدر
بادِ تیز کی مانند دوڑتے ہو
زمانے بھر کو چھوڑتے ہو
وقت کہتا ہے مجھ سے !

میں کہ
خوابوں کے بغیر حقیقتوں کا متلاشی
یہ چاہتا ہوں کہ
وقت سے کہوں
یار ذرا آہستہ

۱ جولایٔ
۱۹۹۶

Comments

Popular posts from this blog

نئی ٹیکسی

پیرویٔ رہنما میں رہنما کے ساتھ چل

کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی