مری خوبیوں کے طالب ہیں

مری خوبیوں کے طالب ہیں
مجھے چاہتا کوئی نہیں

ڈھانے والے بہت موجود
پر سنبھالتا کوئی نہیں

وہ قابلِ ستائش ہیں
کیوں سراہتا کوئی نہیں

سب کو بھیجا جائے ہے
خود سدھارتا کوئی نہیں

حق بات کرنے والوں کو
اب سہارتا کوئی نہیں

۳۰/مارچ/۱۹۹۵



Comments

Popular posts from this blog

نئی ٹیکسی

پیرویٔ رہنما میں رہنما کے ساتھ چل

کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی