شترِ بے مہار

شتر بے مہار


مجھے ایک مشہور سماجی شخصیت، سلمان صاحب، نے گلشنِ اقبال اردو کالج کے سامنے سے ایک نئی چمچماتی ہونڈا اکارڈ میں پک کیا۔ باہر کی گرمی کے مقابلے میں اندرایئرکنڈیشنر نے کافی ٹھنڈک کی ہوئی تھی۔ ان کے ساتھ ایک اور مشہور سماجی سخصیت، نازیہ صاحبہ، بھی تھیں۔ ان دونوں سے میری ملاقات ایک جگہ سمپوزیم میں ہوئی تھی اور میں ان کے اور وہ شاید میرے خیالات سے متاثر تھے، وہ دونوں تھے تو امیر طبقے سے مگر دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کی ہمدردی قابلِ تحسین تھی ۔ تھوڑی دیر پہلے سلمان صاحب کا فون آیا تھا پوچھا فارغ ہو اور کہاں ہو؟ میں نے کہا کہ میں اردو کالج کے سامنے ہوں، سلمان صاحب نے کہا، وہیں رکو ہم آرہے ہیں۔ سلماں صاجب ایک سماجی پروگرام شروع کرنا چاہتے تھے اور اس میں نازیہ صاحبہ اور میری شمولیت کی بات کرنا چاہ رہے تھے۔ سلمان صاحب نے کہا کہ لانگ ڈرائو کا موڈ ہو رہا ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ کار میں ہی بات کرلیتے ہیں۔ ہم لوگ کار میں معاشرے کی  بہتری کے اس پروگرام پر بات کرتے رہے۔

ایک چکر ڈرگ روڈ سے پھر ایئر پورٹ  کے قریب سے لینے کے بعد ہم پھر گلشن کی طرف واپس آگئے۔ راستے میں ہمیں ایک نئی چمچماتی بی ایم ڈبلیو کار نظر آئی جس کو دیکھتے ہی سلمان صاحب ایک کڑوے لہجے میں بولے کہ ہمارے معاشرے میں طبقاتی فرق بہت ہے، ایک یہ امیر کبیر لوگ ہیں اور دوسرے عوام ہیں جو بیچارے پبلک ٹرانسپورٹ میں دکھے کھاتے پھرتے ہیں، نازیہ صاحبہ بھی اثبات میں  سر ہلانے لگیں۔ مجھے اس بات پر تھوڑا غصّہ آگیا، میں نے چنچناتے ہوئے، جو کہ میری عادت ہے، کہا کہ آپ خود عوام میں سے نہیں ہیں، آپ لوگ بھی معاشرے کے اسی طبقہ میں سے ہیں جو کے مہنگی کاروں میں سفر کرتا ہے۔  یہ تو میں ہوں جو کہ دوسرے طبقے سے ہوں، اگر آپ کو کبھی بسوں میں سفر کرنا پڑ جائے تب پتا چلے گا۔ یہ کہتے ہوئے میں نے چپس کی تھیلی میں ہاتھ ڈالا، سلماں صاحب نے گاڑی سے چپس کی ایک ایک تھیلی ہم دونوں کو پکڑا دی تھی۔

مگر پھر مجھے فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جس پر میں نےاپنی تصحیح کرتے ہوئے اور لہجے کو تھوڑا  نارمل کرتے ہوئے کہا کہ شاید میں بھی اس طبقے سے نہیں ہوں۔ ہاں کبھی کبھار مجھے بس میں بیٹھنا پڑجاتا ہے مگر عمومی طور پر سوزوکی، ایک چھوٹی سی ہی صحیح اپنی کار میں سفر کرتا ہوں۔ اس بات پر  سلمان صاحب اور نازیہ صاحبہ دونوں خاموش رہے۔
اتنی دیر میں ہم واپس اسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے  سلمان صاحب نے مجھے بٹھایا تھا مگر سڑک کی دوسری طرف۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ میں وہیں کہیں رہتا ہوں سلمان صاحب نے کار آہستہ کی، میں نےان کی معلومات میں اضافہ کیا کہ میں تو ملیر میں رہتا ہوں، کیا بہتر ہوتا کہ میں ایئر پورٹ پر ہی اتر جاتا۔ سلمان صاحب کی مجھے ملیر تک لے جانے کی آفر کے باوجود میں وہیں اتر گیا۔ چپس کے تھیلی میرے ہاتھ میں ہی رہ گئی تھی۔

اب بس لینے کے لیئے مجھے سڑک کی دوسری طرف جانا تھا، مگر کراچی کی دوسری کئی شاہراہوں کی طرح یونیورسٹی روڈ کے سگنل فری ہونے کے بعد سڑک کے درمیان میں گِرِلز لگ گئیں تھیں۔ تھوڑی دور اوور ہیڈ برج بنا ہوا تھا، مگر میں ایک کافی ٹھنڈی گاڑی سے اترنے کے بعد چلچلاتی دھوپ میں اس برج تک جانے اورپھر بس اسٹاپ سے واپس آنے کی لیئے تیار نھیں تھا۔ ایک جگہ سے گِرِل سے ایک سلاخ کسی بھلے مانس نے نکالی ہوئی تھی، میں نے اسی جگہ سے گِرِل پھاندے کا ارادہ کیا۔ ٹریفک کافی تیز تھا اور اس میں وقفہ بھی نھیں آرہا تھا اور آتا بھی کیسے، سڑک پر کہیں سگنل ہوتے تب ہی تو ٹریفک میں وقفہ آتا۔  کراچی میں حال ہی میں کئی سگنل فری کاریڈور بن گئے تھے اور لمبے سفروں کا وقت بہت کم  ہوگیا تھا۔ گاڑیاں بغیر رکے کافی فاصلہ طے کرلیتی تھیں۔

خیر اتنی دیر میں ٹریفک تھوڑا کم ہوا، صرف ایک گاڑی آرہی تھی جو کہ تیز ہونے کے باوجود نسبتاً آہستہ تھی۔ اس کے پیچھے کئی گاڑیاں کافی تیز آرہی تھیں، میں نے اس گاڑی سے پہلے بھاگ کر تیزی سے سڑک پار کرنے کا ارادہ کیا، اور فوراً ہی فٹ پاتھ سے سڑک پر چھلانگ لگا دی۔ مگر یہ کیا، یہ کمبخت فٹ پاتھ عمومی فٹ پاتھوں کے مقابلے میں کافی اونچا تھا، میرے پاؤں لڑکھڑا گئے، میں نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکا اور  اس گاڑی کے سامنے ہی سڑک پر زمین بوس ہو گیا۔ اسکے بعد کیا ہوا یہ مجھے معلوم نہیں ہوسکا بس آخری احساس مجھے اپنے ہاتھ میں چپس کی تھیلی کی موجودگی کا تھا۔

Comments

Popular posts from this blog

ارتقاء

نئی ٹیکسی

کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی